تازہ ترین
سکولوں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں ناگزیر ہیں۔ فضل خالق ڈپٹی ڈی ای او سوات خیبر پختونخوا کے تمام سرکاری سکولوں میں نیا سکول یونیفارم متعارف کرانے کی غرض سے منگل کے دن پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک روزہ مشاورتی سیمینار منعقد

گھر آیا استاد

گوہر علی گوہر

’گھر آیا استاد ‘‘مگر کس لئے ؟ گوہر علی گوہرؔ صوبائی حکومت نے صوبہ میں شرح خواندگی بڑھانے کیلئے گزشتہ سال خواندگی مہم چلائی جب اس سال انہوں نے اس نعرے اور پالیسی کو بدل کر ’’گھر آیا استاد ‘‘ مہم شروع کردیاہے ۔جو کہ شرح خوندگی بڑھانے اور کم عمر بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کیلئے انتہائی قابل تحسین اقدام ہے صوبہ میں شرح خواندگی بڑھانے کیلئے حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں ۔مگر مہم کو کامیابی کیلئے ضروری تھا کہ پہلے سے جو بچے سرکاری اسکولوں میں داخل ہیں انہیں سہولیات فراہم کی جاتی اور سکولوں کی حالات زار درست کرانے کے بعد اگر ’’گھر ایااستاد ‘‘ مہم شروع کردیا جاتا تو اس کی ایک سو دس فیصد کامیابی یقینی تھی ۔مگر صوبائی حکومت یا محکمہ تعلیم کے ارباب و اختیار نے عجلت سے کام لے کر میری طرح تنقیدنگاروں کو تنقید کا موقع فراہم کردیا ہے ۔اب جس سکول میں پہلے سے داخل بچوں کے سرچھپانے کیلئے کمرے دستیاب نہیں، بیٹھنے کیلئے کرسیاں اور بینچ تو کیا ٹاٹ میسر نہیں ، معمولی بارش اور تھپتی دھوپ میں سکول میں داخل بچوں کو چٹھی دی جاتی ہو، رفع حاجت کیلئے لیٹرین نہیں پرائمری کے پانچ کلاسز کو پڑھانے کیلئے صرف دو ٹیچر ہو ، مڈل سکولوں کی حال بھی پرائمری سے زیادہ مایوس کُن ہو ہائی سکولوں میں سائنس ٹیچر اور سائنس لبارٹری اور دیگر الات کا فقدان ہو انٹر نیشنل ایجوکیشن قوانین کے مطابق 40 بچوں کیلئے ایک استاد ہو مگر یہاں ایک ایک کلاس میں 80 سے 100/100 تک بچے داخل ہو،سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے بڑی بڑی تنخواہوں کے باوجود پرائیوٹ سکولوں کا نتیجہ بہتر ہو، والدین اپنے بچوں کو لے جاکر جب سکول میں داخل دیگر بچوں کی حالات دیکھ کر اپنے بچے کو واپس گھر لے انے یا مجبوراً پرائیویٹ سکول میں داخل کراتے ہو تو ان سکولوں کے اساتذہ اگر گھرگھر جاکر پیغام پہنچائے تو اس کا نتیجہ صفر ہوگا۔ ایسا مہم تو تب چلایا جاتا کہ جب لوگوں کو علم کی اہمیت سے واقفیت نہ ہو یہاں تو تمام والدین علم کی اہمیت سے نہ صرف اگاہ ہے بلکہ خود تعلیم حاصل نہ کرنے پر انتہائی نادم اور پشیمان بھی ہیں کسی بھی ریڑھی بان سے پوچھ لیں یا رکشہ ڈرائیور سے ، کسان سے پوچھ لیں یا دیہاڑی دار مزدور سے جاہل سے جاہل آدمی بھی اپ کو کہیں گے کہ انہوں نے تعلیم حاصل نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے وہ زمانہ اب گزر گیا ہے جب لوگ ’’سبق د مدرسے وائی د پارہ د پیسے وائی ‘‘ کے تعلیم دشمن اشعار پڑھتے اور دہراتے تھے ۔ خیبر پختونخوا کے عوام کو علم کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہوچکا ہے اور خدشہ ہے کہ جس طرح حکومت کی زیادہ زور یا دلچسپی کو دیکھ کر لوگ یا افواہ ساز ایک مرتبہ پھر ’’گھر ایا استاد ‘‘ مہم کو بھی اسلام دشمن یا مذہب دشمن قوتوں کا سازش قرار دیں ۔کیونکہ جس مہم یا پروگرام میں بھی حکمران اور حکومت زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں تو افواہ ساز اس کے خلاف مہم کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیتے ہیں جس طرح ابتداء سے لے کر اب تک پولیوقطروں کے خلاف من گھڑت کہانیاں سامنے آجاتی ہیں۔ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی ترقیاتی یا تعمیراتی کام شروع ہوجا تا ہے تو ہم انہیں مذہب کے خلاف یا مخالف سمجھ کر اس سے الجھ جاتے ہیں مگر بعد میں ہم اپنے غلطی پر نادم ہوکر افواسازوں کو برا بلا کہنا شروع کردیتے ہیں مگر تعلیم کے حوالے سے پوری قوم متفق ہے کہ تعلیم کے بغیر نہ تو کوئی ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ کوئی قوم ۔ اس لئے ’’گھر ایا استاد ‘‘ مہم کو کامیاب بنانے کیلئے پہلے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو حقیقت میں تعلیمی ادارے بنانے پر توجہ دیا جائے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2013-14 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹوٹل پرائمری سکولوں کی تعداد 22892 ہیں جن میں 144 عارضی طور پر بند ہے جبکہ 31 زیر تعمیر ہے جس میں ٹوٹل 1932085 طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہے پرائمری سکولوں میں 3694 کے باؤنڈری وال نہیں، 6364 میں پانی کی سہولت نہیں 8713 میں بجلی کی سہولت جبکہ 581 سکولوں میں لیٹرین نہیں ہے یہ تو سرکاری اعداد و شمار ہے مگر حقیقت میں اس سے بھی زیادہ سکولوں کی چار دیواری، پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کی شکایات ہے اب جب حکومت خود یہ اعتراف کرتی ہے اور ویب سائٹ پر یہ اعداد و شمار دنیا کو دکھا رہی ہے تو اگر ’’گھر ایا استاد ‘‘ مہم میں مزید بچے بھی سکولوں میں داخل ہوجائے تو انہیں کون سی سہولیات فراہم کی جائیگی؟ ۔ صوبہ خیبر پختونخوا صرف پشاور مردان یا سوات نہیں بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ دور افتادہ پہاڑی علاقوں پر محیط ہے جہاں پر تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے زیادہ تر ایسے علاقے بھی ہیں جہاں حکومت نے سکول عمارتوں کی تعمیر پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کئے ہیں جیسا کہ 144 سکولوں کی بندش کا ذکر صوبائی حکومت کی ویب سائٹ پر موجود ہے مگر وہ یا تو مقامی ملکان یا خوانین کی حجرے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں یا اس میں جانوروں کو پالا جاتا ہے اس لئے سرکاری عمارتوں کیلئے وضع کردہ طریقہ کار اور پی سی ون کی منظوری کیلئے جو فارمولہ موجود ہے اگر اس پر سو فیصد عمل کو یقینی بنایا جائے تو کوئی بھی منصوبہ ناکامی کا شکار نہ ہوگا اور نہ ہی سرکاری خزانہ کا ضیاع ہوگا ۔