تازہ ترین
سکولوں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں ناگزیر ہیں۔ فضل خالق ڈپٹی ڈی ای او سوات خیبر پختونخوا کے تمام سرکاری سکولوں میں نیا سکول یونیفارم متعارف کرانے کی غرض سے منگل کے دن پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک روزہ مشاورتی سیمینار منعقد

کچروں کے ڈھیرپرمستقبل کے متلاشی بچے

ناصر عالم

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ہر قوم کی ان بچوں سے متعددامیدیں وابستہ ہوتی ہیں اوران میں سب سے بڑی امید ہے ہوتی ہے کہ آج کے یہ بچے کل بڑے ہوکر ملک وقوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ معاشرہ پرموجودمختلف مسائل کا بوجھ کم کرنے میں بھی اہم کرداراداکریں گے مگر قوم کی یہ آس اس وقت یاس میں تبدیل ہونے لگتی ہے جب انہیں یہ بچے سکول کی بجائے مشقت والی جگہوں پرکام کرتے اورکچرے کے ڈھیروں پراپنا مستقبل تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ سوات میں بچوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ عرصہہ درازسے جاری ہے جس کی وجہ سے یہاں پر بچوں اس مسئلہ نے سنگین صورت اختیار کرلیا،مینگورہ شہر سمیت ضلع بھر میں ورکشاپوں،ہوٹلوں ،گاڑیوں،دکانوں میں کام کرتے اوربازاروں میں بھیک مانگتے یہ معصوم بچے غیرسیاسی تنظیموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں تو یہ صورتحال دوسری طرف حکومت کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے،یہاں پر انسانی حقوق کی پامالی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بلاخوف خطرجاری جس میں سب سے زیادہ بچوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں،اس وقت سوات بھر میں ہزاروں معصوم بچے ورکشاپوں اوردیگرمشقت والی جگہوں پر محنت مزدوری ،چھوٹی بڑی گاڑیوں میں کنڈیکٹری اورہوٹلوں میں ویٹری جبکہ بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں،اس کے علاقہ پیشہ وربھکارنین شیرخواربچوں کو نشہ آوردواپلانے کے بعدانہیں سڑک کے کنارے لٹاکران کے ذریعے بھیک مانگتی نظر آتی ہیں،اس کے علاوہ بیشتربچے گندے نالوں اورگندگی کے ڈھیروں میں کارآمد چیزیں تلاش کررہے ہیں،ایسالگتاہے کہ یہ معصوم بچے اس گندگی میں اپنا مستقبل تلاش کررہے ہیں،مشقت والی جگہوں پرکام کرنے والے ان معصوم بچوں کو دن بھر کی محنت کا بہت کم معاؤضہ مل رہا ہے جس سے ان کے گھر کاچولہاایک دن بھی نہیں جل سکتا۔ غربت، غفلت اورعدم توجہی کی وجہ ہے کہ ہمارا یہ قیمتی سرمایا ضائع ہورہاہے مگر بجائے اس کے کہ ہم اس سرمائے کو ضائع ہونے سے بچائیں ہم صرف تماشادیکھ رہے ہیں،ایسے ماحول میں پلنے والے مختلف ذہنی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں احسا س محرومی اوراحساس کمتری سرفہرصت ہے جس کی وجہ ہے وہ منشیات اوردیگرغیراخلاقی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اوریہی ہیں وہ بچے جن سے قوم نے متعددامیدیں وابستہ کررکھی ہیں کہ بڑے ہوکر کل معاشرہ کا بوجھ کم کرنے میں کرداراداکریں گے مگرکیا ایسے ماحول میں پل بڑھ کر یہ بچے معاشرہ کا بوجھ کم کرنے میں کرداراداکرسکیں گے،ہرگزنہیں بلکہ ایسے بچے خود معاشرہ پر بوجھ بن جاتے ہیں،ان بچوں کے معصوم چہروں اورآنکھوں کو اگر بغوردیکھا جائے تو ان سے یاس ،ناامیدی اورمایوسی ٹپکتی نظر آئے گی اورماضی سے بے خبر،حال سے عاری اورمستقبل سے لاپرواہ ان بچوں کو اس مقام تک پہنچانے میں ہم سب کاکردارہے۔ اس وقت یہاں پرمختلف ناموں سے متعددغیرسیاسی تنظیمیں موجود ہیں جو بچوں کے حقوق کع پامال ہونے سے بچانے اورانہیں روشن مستقبل دلانے کے دعوے کررہی ہیں مگر ان کے یہ دعوے صرف اورصرف خالی خولی نعرے ثابت ہورہے ہیں کیونکہ آج تک ان تنظیموں کی اس حوالے سے کوئی عملی کارکردگی نظر نہیں آئی،ان تنظیموں کا کام صرف کاغذی کارروائی اوربڑے بڑے ہوٹلوں میں سمینار اورورکشاپ کرانے تک محدودہے جس سے ان بچوں کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بچوں کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی ان تنظیوں سے ابھی تک حکومت یا دیگر ارباب اختیار نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ان کی سرگرمیوں کے نتیجے میں اب تک کتنے بچے کچرے کے ڈھیر سے اٹھ کر سکولوں میں داخل ہوچکے ہیں؟کتنے بچوں کو مشقت والی جگہوں سے چھٹکارہ ملا ہے ؟بے راہ روی کاشکار کتنے بچے راہ راست پر آگئے ہیں؟ یہ تنظیمیں صرف اورصرف بچوں کے حقو ق کے نام پر فنڈوصول کررہی ہیں جس سے بچوں کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہاہے مگران تنظیموں کو خاصافائدہ پہنچ رہاہے ،اگردیکھا جائے توبچوں کے حقوق کے باتیں کرنے والی یہ تنظیمیں ازخود بچوں کا استحصال کرنے میں پیش پیش ہیں دوسری جانب بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے میں حکومت کی کارکردگی بھی صفر ہے جس پرجتنابھی افسوس کیا جائے کم ہے تاہم مرکزی اورصوبائی حکومت سمیت دیگراعلیٰ حکام کو چاہئے کہ وہ سوات میں جاری بچوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ رکوانے کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں تاکہ یہ قیمتی قومی سرمایا مزید ضائع ہونے سے بچ سکے جبکہ ان معصوموں کے نام پر سرگرم عمل تنظیموں کے بارے میں بھی تحقیقات کریں کہ اب تک ان کی کارکردگی سے کتنے بچے مستفیدہوچکے ہیں۔؟؟